دیکھو میں کتنا مسکرا رہا ہوں
کہنا بہت کچھ، لیکن چھُپا رہا ہوں
آپ کی عادت نہ تھی، نہ ہے، نہ ہوگی
بڑے ہُنر سے خود کو سمجھا رہا ہوں
حُب، خواب، تعبیریں،یادیں سب برائے فروخت ہے
میں تو کب سے بیٹھا آوازیں لگا رہا ہوں
آج بھی کوئی نہ آیا، سامانِ سوز خریدنے
دیکھو آج بھی میں تمھارے دروازے کو چھوڑتا جا رہا ہوں
آپ ہو کرتے اوروں کی فکریں، اوروں کی باتیں
میں تو اپنا گھر، گاؤں اور وطن بھی چھوڑے جا رہا ہوں
نہیں جھانکوں کا کبھی اس دل کی کھڑکی کی اور
دیکھو سب راستوں کو مُقفل کیے جا رہا ہوں
رفتارِ وقت میں لوگ کپڑے، انداز، رنگ سب بدلتے ہیں
میں کل بھی سفید پوش تھا، آج بھی سفید پہنے جا رہا ہوں
کبھی ہو دل بے قرار، آئے میری یاد، تو آنکھیں مت بھگونا
آج بھی شاعری کی سب سَطریں کُھلی چھوڑے جا رہا ہوں
آپ کہتے تھے، یہ تڑپ نہیں یہ مکر، فریب اور بدلہ ہے!
میں کہتا زمیں رنگ بدلتی ہے، بھلا آسمان نے بھی رنگ کبھی بدلا ہے؟
ہم رنگ کو ایک ہی رکھتے ہیں، ہر سانچے میں نہ ڈھلتے ہیں
نہ جلدی لَو لگاتے ہیں، نہ جلدی ہاتھ بڑھاتے ہیں
گر سوچ کسی سے مل جائے، گر روح کہیں ٹھہر جائے
سوچتے ہیں نہ گھبراتے ہیں نہ کوئی بہانہ بناتے ہیں
منزل ،راستہ ،مقصد، نہ ان پر کان دھراتے ہیں
ہمسفر کی چاہت میں ساری عمر عہد نبھاتے ہیں
آپ کہتے یہ تعریفیں ہیں، لو پھر یہ تو بہت ہو گئیں
اب چلتے ہیں بے منزل راہ، چلو غم کی گٹھڑی اٹھاتے ہیں
لو دیکھو میں جا رہا ہوں، ذرا بھی نہ گھبرا رہا ہوں
ہمت والا ہوں ، راؔئےدیکھو میں کتنا مُسکرا رہا ہوں
رائے وقاص کھرل