سوچا تھا کبھی دلِ دشت میں
کسی بھولی بسری شام میں
موسم وہی پھر سے آ رہا
اداس گھڑیوں کے دوام میں
جیسے زرد بادل آسمان میں
کوئی سَندیس کسی کا لا رہا
پرندے بھی گھر جا رہے
باتیں دل کی سُنا رہے
ان کا محو محبت دیکھ کر
دریچے دل کے ہلا رہے
تاریکی جیسے چھا رہی
میری نبض گھٹتی جا رہی
یاد پھر ایسے ان کی آ رہی
جیسے سانس سے سانس جا رہی
من مائل ہے ، روح گھائل ہے
کیا اتنا سِتم، صنم جائز ہے؟
کیوں تم اتنا یاد آ رہے ہو
بھول بھی جاؤ ،گر بھُلا رہے ہو
تم صبر میں ہو، خاموش بھی ہو
پھر شور کیوں اتنا مچا رہے ہو
ہاں تم تھے، چاند کسی کے
سورج سے ہی دور جا رہے ہو
دور جو تم چلے جاؤ گے
وہ روشنیاں کس سے پاؤ گے
گھبراؤ گے، پچھتاؤ گے
پھر سجدوں میں گڑگڑاؤ گے
چلتے چلتے ہاتھ جو چھوڑا
دل سے دل کا ناطہ توڑا
میں نے ہر ہر بار جوڑا
تو نے ہر ہر بار توڑا
اک خوف جو دل کو کھا رہا
تیرا کل آنکھ کے سامنے آ رہا
تو ہنس بھی رہا، مسکرا بھی رہا
اندر ہی اندر گھبرا بھی رہا
پھر بات ایک ہی ہو سکتی ہے
تو رشتہ نیا بنا رہا ۔۔۔!
گھبرانا مت ، پچھتانا مت
میری چال میں بالکل آنا مت
میری شاعری ، میرے لفظ
اس جال میں دھوکہ کھانا مت
وہی کرنا جو لوگ کہیں
جو پرم پرا ہے، جو چلتا رہا ہے
جب جب مشکل وقت آتے ہیں
یہ لوگ خدا ہو جاتے ہیں
اکثر پیار میں پاگل پنچھی
گھر اپنا ہی جلاتے ہیں
روح، سکوں، سانس، صنم
بھرے بازار بیچ آتے ہیں
غیرت، ستم ، سماج کی گٹھڑی
ساتھ اپنے گھر لے آتے ہیں
پھراستخارے، صدقے، سجدے ، دعائیں
کر کر تھکتے جاتے ہیں
ہیں یہی محبت کےاصل مجرم
جو وحشت کو گلے لگاتے ہیں
یہ اداسیوں کے تعفن زدہ
ڈھیروں خوشبو لگاتے ہیں
چِھڑکاتے ہیں عُود بہت
دم درود بھی کرواتے ہیں
پھر بھی چہرے کے آثار وہی ہیں
وحشت کے امراض وہی ہیں
کبھی دیکھے ہیں تندرست مریض
جو طبیب کو دھوکا دے جاتے ہیں
تیری نبض بھی پڑھ لی تھی میں نے
کئی سال قبل کئی بار قبل
تو وہی تھی، کہتی تھی عالم ارواح میں
میرا ساتھ نہ چھوڑنا برزخ تک
تاریک رستوں میں، طوفانی راتوں میں
میرا ہاتھ نہ چھوڑنا مرتے تک
دیکھ میرا ہاتھ وہیں ہے
ڈھونڈ ذرا، یہاں تو نہیں ہے
دیکھ میرے ہاتھ کو دیمک کھا رہی ہے
درد اتنا کہ روح بھی میری کراہ رہی ہے
شدتِ تکلیف ہے اتنی جیسے
جھاڑی سے ریشم کھینچی جا رہی ہے
دعا ہے تجھے پانے کی خواہش نہ رہے
تجھے کھونے کا غم نہ رہے
کائنات کے ایک ایک ذرے کی
کسی سازش میں دَم نہ رہے
خدا کرے تو مجھ میں
اور ہم تجھ میں نہ رہیں
یہ جنتری، یہ کیلنڈر، یہ گھڑیاں
یہ موسم یہ پَل نہ رہیں
خدا کرے ، ایسا ہی ہو راؔئے
لیکن ایسا کہاں ہوتا ہے
وہی موسم پلٹ آتے ہیں
اُسی شام کو پھر لے آتے ہیں
جس شام میں دَشت ہی دَشت ہے
اُسی شام پرندے بھی گھر جاتے ہیں