سوچا تھا کبھی دلِ دشت میں
کسی بھولی بسری شام میں
موسم وہی پھر سے آ رہا
اداس گھڑیوں کے دوام میں
سوچا تھا کبھی دلِ دشت میں
کسی بھولی بسری شام میں
موسم وہی پھر سے آ رہا
اداس گھڑیوں کے دوام میں
نہ رنگیں طبیعت ، نہ شوخ پرور
اِس سادہ سے لڑکے سے کام پڑ گیا ہے
گردش ایام کے جو تھا بوجھ تلے
وہ شاعری میں تھوڑا نام کر گیا ہے
جب جب اصلیت نوشتہ دیوار ہوتی ہی
تب تب یہی حقیقت آشکار ہوتی ہے
ہوتی ہے پیدائش، موت بھی اِک بار
اِک بار ہی محبت گل و گلزار ہوتی ہے
رات جو پورا چاند تھا نکلا
اُس میں تیرا عکس تھا دِکھلا
رات ساری رہا میں تکتا
چاند کو یہ رہا میں کہتا
کچھ کچھ اب مجھ پر آشکار ہوا ہے
ہاں! واقعی مجھے بھی کہیں پیار ہوا ہے
کچھ یاد پڑے تو بھلے وقتوں کی بات تھی
بھلی سی اک شکل لگتی کل کائنات تھی
دیکھو میں کتنا مسکرا رہا ہوں
کہنا بہت کچھ، لیکن چھُپا رہا ہوں
آپ کی عادت نہ تھی، نہ ہے، نہ ہوگی
بڑے ہُنر سے خود کو سمجھا رہا ہوں
پاس بیٹھا دوست شکوہ کرتے
ہوئے
روکا گیا ہے عورت کو جنگوں میں مارنے سے
بھلا بتاؤ کیسے ؟ ہم اُسے، مَحبّت میں مار دیں !
رائے وقاص کھرل
نہ باندھ رونقِ زندگی کو ، نتیجہ و نتائج کے ساتھ
یہ لمحے دیارِ غیر کے ، جی لے ! دلبری کے ساتھ
رائے وقاص کھرل
سُنو!
سُنو! نہ لکھنا کبھی تم میرے رنگ روپ چال کے بارے میں
تم لکھنا میرے خواب، میری اڑان کے بارے میں
ہر حرف میری زبان سے خرج ہے دل کا،
کلام میر ا ہے گلزار و رخسار کے بارے میں
آرہی ہے یاد مجھ کو، وہ مسکراہٹ
دبے دبے سے پاؤں کی ، وہ آہٹ
جانتے تھے جان
جان جائے گی
مہک رہی ہے یہ زمیں
چاند لائے گی
دیکھنا میری کتاب سے نکل کر
تتلیاں غزل سنائیں گی