آرہی ہے یاد مجھ کو، وہ مسکراہٹ
دبے دبے سے پاؤں کی ، وہ آہٹ
جانتے تھے جان
جان جائے گی
مہک رہی ہے یہ زمیں
چاند لائے گی
دیکھنا میری کتاب سے نکل کر
تتلیاں غزل سنائیں گی
وہ ہاتھ کا پکڑنا
نظر کا ملانا
پھر شرمانا
یاد ہے وہ زمانہ اور گھبراہٹ
آرہی ہے یاد مجھ کو، وہ مسکراہٹ
دبے دبے سے پاؤں کی ، وہ آہٹ
کیا ضرورت تھی اُس
تبسم کی
ٹھہری ہوئی اس جھیل کو
بادل بنانے کی
اب چاہئے اجازت ہمیں
بھیگ جانے کی
طوفانِ قلب کا یہ ضبط
نہ روک سکے گا یہ گڑگڑاہٹ
آرہی ہے یاد مجھ کو، وہ مسکراہٹ
دبے دبے سے پاؤں کی ، وہ آہٹ
یہ کیوں سمجھ کر شجر مجھے
مرا احترام کرتے ہیں
پرندے رات کو
مجھ میں قیام کرتے ہیں
میسر کر سرِ راہ بہار مجھے
سنانی ہے تم کو وہی چہچہاہٹ
آرہی ہے یاد مجھ کو، وہ مسکراہٹ
دبے دبے سے پاؤں کی ، وہ آہٹ
حصار ذات سے نکل کر
تجھ کو اپنانے کی چاہت
افق کے منظر پر
آئے گی نظر تمہیں
اک جگمگاہٹ
خیالوں کے اس جال میں راؔئے
کب تک کھوئے رہیں گے
خنکی سی اک ہوا کی
سنانا چاہتی ہے کچھ سرسراہٹ
آرہی ہے یاد مجھ کو، وہ مسکراہٹ
دبے دبے سے پاؤں کی ، وہ آہٹ
(رائےوقاص کھرل)