30 August 2024

SHEHAR WALAY

نہ رنگیں طبیعت ، نہ شوخ پرور 

اِس سادہ سے لڑکے سے کام پڑ گیا ہے 


گردش ایام  کے جو تھا بوجھ تلے 

وہ شاعری میں تھوڑا نام کر گیا ہے  


سَوالِ مَحبت ، جو سینے میں بھٹکتا    پھرتا 

جواب دو، نیندیں حرام کر گیا ہے 


تھا بچپن جو گزرا  میرا ، شہر کی چاشنی میں

اب جوانی کیوں گُزرے ،گاؤں کی خامشی میں ؟


اے دوست!

کیوں تُو نے خود ہی خود میں، خود کو جلا  لیا ہے  

اجودھن کے آتش کدے کا دربان بنا  لیا ہے


سرمائے کے بدلے رفاقتوں کے دور میں 

تعلق، مرتبہ، طاقت  گردی  کی دوڑ میں 


کاروبار، منافع اور لالچ کے زور میں  

سوال نے تمہارے لاجواب کر دیا ہے 


پہلے پہل  تو  عقیدت، عبادت کا پاٹ پڑھاتے ہیں

دل کشی، اُنس، محبت کا فرق بتاتے ہیں


یہ گزرتی ہے عزت کی پاک گلیوں سے 

پھر آہستہ آہستہ اس کی قیمت لگاتے ہیں 


تو سمجھا کہ پردے کا اہتمام کر لیا ہے

شہر والوں نے یہ تماشہ سرعام کر دیا ہے 


امیرِ شہر آج بھی قیمت بھر رہا ہے 

ہوس نے یہ رشتہ بدنام کر دیا ہے


یہ اس بات سے  ہی  چِڑ جاتے ہیں 

وقت پرور ہیں ،  کہانیاں سناتے ہیں

 

کچھ دیکھ کر ، کچھ بھانپ کر  دوستی لگاتے ہیں

وقت  بدلنے پر ،ان کے تیور  بدل جاتے ہیں


اِس کھیل کے ماہر ہیں یہ ازل سے 

تم سیدھے ہو، تمہیں کھلونا بناتے ہیں


تم سمجھتے تھے کہ صرف تم ہو ، بس تم 

شہر  والے احتیاطََ مُتبادل بھی رکھ آتے ہیں


 وقت گزاری کے لئے یاریاں لگاتے ہیں 

 یہ وقت آنے پر بہانے وہی بناتے ہیں 


تمہیں یقیں  آجائے ، تم  با وفا سمجھو اِنکو

مگر مچھ  کے جیسے آنسو بھی بہاتے ہیں


یہ ُبلبل  ، فاختہ  ، کوئل کو افسانہ بتاتے ہیں 

امتحاں پڑنے پر کوّ ے بھی  بن جاتے ہیں 


پوچھیں کبھی ان سے وجہ دھوکے کی

مُسکرا کر، اترا کر اداکار بن جاتے ہیں 


بیچ نہ دینا ، قیمتی جذبات اِن کو 

یہ کراڑ ہیں ، گھاٹا نہ کھاتے ہیں


یار ، میں نے بات کو تھوڑا آساں کر دیا ہے 

معذرت ، تمہیں کافی پریشاں کر دیا ہے 


نہیں ، اِس سوال نے کیسا کام کر دیا ہے 

راؔئے ، تو نے محبت کا انجام کر دیا ہے


گاؤں والا تھا ، تمنا تھی اسے پانے کی

اِک  پرند نے  پورے غول کو بد نام کر دیا ہے 



              رائے وقاص کھرل


SHEHAR WALAY

Na Rangeen Tabiat, Na Shokh Parwer
Is Sada Se Larkay Se Kam Parr Gya Ha

Rai Waqas Kharal